تحریر : آمنہ ریاض (سانگلہ ہل)

      سوشل میڈیا اس قدر طاقتور میڈیم ہےکہ دنیا کے کسی کونے میں موجود شخص سے آپ کی ملاقات کروا سکتا ہے اور آپ کو اپنے خاندان کے ساتھ رہتے ہوئے بھی ان سے دور کر سکتا ہے۔ اس برقی دور میں جہاں ہر چیز برق رفتاری سے اسکرین کا حصہ بنتی جا رہی ہے، وہیں جذبات، احساسات اور خیالات بھی برقی صفحات کا حصہ بن چکے ہیں۔ یوں معلوم ہوتا ہے کہ ایموجیز کی مدد سے اپنے احساسات کا اظہار کرنے والی نسل کی زبانوں سے اصل الفاظ کی چاشنی گم ہو چکی ہو ۔ کوئی مر رہا ہے تو ویڈیو ،کوئی مار رہا ہے تو ویڈیو، آپ نے کیا کھایا ،کیا خریدا ،کیاپہننا ،کہاں گھومنے گئے ،کس سے ملے،کس کے ساتھ وقت گزارا ۔ ہر لمحہ سیلفی کی فکر میں جیتے لوگ اتنی زندگی جی نہیں رہے ، جتنی زندگی کیمرے میں قید کر رہے ہیں۔ اس سارے منظر نامے میں برقی صفحات پر جو جیسا نظر آ رہا ہے ،وہ اصل سے بہت الگ ہے۔کچھ لوگوں کو آپ برقی صفحات پر دیکھ کر یا پڑھ کر ان کے بارے میں کوئی رائے قائم کر لیتے ہیں اور جب حقیقی زندگی میں ان سے ملاقات کا موقع ملے تو پتہ چلتا ہے کہ آپ کے اندازے درست نہیں تھے ۔ جہاں تک میرا مشاہدہ ہےہم مجموعی طور پر انتہا پسند ،جذباتی اور غیر جمہوری واقع ہوئے ہیں۔ ہماری روز مرہ سرگرمیاں ہمارے مزاج کی عکاسی کرتی رہتی ہیں۔ہم سب کو اپنے اپنے گریبانوں میں جھانکنا چاہیے،انفرادی طور پر اصلاح ہو جائے ،تو اجتماعی طور پر خود بخود سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا ۔ ہمیں اپنی آف لائن زندگی میں بھی اپنے رویوں کی جانچ پڑتال کرنے کی اشد ضرورت ہے ایک چیز ایسی ہے جس کو اگر ہم اپنی روز مرہ زندگی کا تھوڑا سا حصہ بھی وقف کر دیں ، تو ہمارے بے شمار مسائل اس طرح مٹ جائیں گے گویا کہ کبھی تھے ہی نہیں ۔ میرا اشارہ ہماری ہی تربیت اور آگاہی کے لیے لکھی گئی دنیا جہاں کی رنگ برنگی کتابوں کی طرف ہے۔ کتاب جو ہماری نظریاتی بنیادوں کو جھنجھوڑتی رہتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور ہم روز کچھ نیا سیکھتے اور کچھ بہتر بننے کے خوب صورت سفر پر رواں دواں رہتےہیں۔ بقول اقبال

 افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر 

ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ