تحریر: ارم امیر
دراز قد ،بکھرے بال ، میلے سے کپڑے چہرے پر ایک عجیب وغریب سی پراسراریت اور ماتھے پر آڑھی ترچھی لکیریں اس بات کی غماز تھی کے زندگی اتنی آسان نہیں رہی ہو گی مگر غور سے دیکھنے پر صاف معلوم ہوتا تھا کے عمر زیادہ نہیں تھی مگر حالات نے اصل عمر کو بدل ڈالا تھا اور لوگ اسے " بابا " یا "فقیر" کہہ کے بلایا کرتے تھے ۔اسے گاؤں میں آئے ہوئے ابھی کچھ دن ہی گزرے تھے لوگوں میں سنسنی سی پھیل گئی تھی کون ہے؟ شکل سے تو فقیر نہیں لگتا, آیا کہاں سے ہے ؟فقیر ہے تو مانگتا کیوں نہیں؟ جو مل جائے لیتا ہے کبھی دوسرے مانگنے والوں کی طرح صدا کیوں نہیں لگاتا ؟ اور یہ پوٹلی ہمیشہ ساتھ کیوں رکھتا ہے ؟ اس کو کبھی کھولتے نہیں دیکھا ؟ شاید چھپ کے کھولتا ہو گا ۔لیکن اس میں رکھتا کیا ہو گا ؟ کچھ تو ہو گا اس میں جو دوسروں سے چھپاتا ہے ۔یہ بھی ہو سکتا ہےکہ دوسرے گاؤں سے کچھہ چوری کر لایا ہو یا کوئی جرم کر کے بھا گ آیا ہو یا شاید دوسرے گاؤں والوں کا جاسوس ہو یا کوئی عالمی ایجنسی کا جاسوس بھی ہو سکتا ہے ۔یہ سارے سوال گاؤں والوں کے ذہنوں میں ابھر رہے تھے ۔مگر وہ بابا جی دنیا سے بے نیاز اپنی ہی دھن میں روز گاؤں کا ایک چکر کاٹتے اور پھر چوراہے پر لگے ایک سایہ دار درخت کے نیچے بیٹھ جاتے منہ ہی منہ کچھ بڑ بڑاتے اور اپنی پوٹلی کو سینے سے لگائے رکھتے ۔آتے جاتے لوگ کھبی حیرت سے دیکھتے اور کبھی تھوڑی دیر رک جاتے پھر پاگل سمجھ کر آگے بڑھ جاتے اس پوٹلی پر کبھی کسی نے دھیان نہیں دیا سوائے گاؤں کے کچھہ شریر بچے جو ہر کسی کو بغیر وجہ چھیڑنے کے عادی تھے اس کی پوٹلی پر کچھہ زیادہ ہی توجہ دینے لگے تھے۔اوئے رفیق! اس بابا کی پوٹلی تو دیکھ کتنی میلی سی ہے مگر پھر بھی سینے سے لگائے رکھتا ہے ایسے جیسے اس میں کوئی سونا ہو ہاہاہا۔کلو ہنسا ۔
رفیق: سونا نہیں کوئی خزانہ ہو جیسے ۔
کلو : ایسا ہوتا تو یہ بیچارہ اپنی چھوٹی سی جھونپڑی میں کیوں رہتا۔ کیوں چھوٹو!
چھوٹو: یار ہو سکتا ہے یہ بندہ کوئی خزانہ لوٹ کے لایا ہو اور مالکوں سے چھپ رہا ہو ۔
کلو : نہیں اوئے! مجھے تو کوئی مجنوں لگ رہا ہے جسے لوگوں نے مارمار کےگاؤں سے نکال دیا ہو ۔
رفیق: خیر یہ پتہ تو لگانا ہو گا کہ یہ چھپاتا کیا ہے ۔ آخر گاؤں کی حفاظت کا سوال ہے ایسے ہی تو نہیں جانے دے سکتے ۔
کلو نے ہاں میں ہاں ملائی ۔ آج اس کا پیچھا کریں گے دیکھیں گے کے یہ کیا کرتا ہے جھونپڑی میں جا کے اور اس کی پوٹلی تو کو لازماً دیکھنا ہے کہ اس میں کیا لیے پھرتا ہے ۔
سب اس بات پہ متفق ہوگئے ۔ سارا دن اس بابا کے آگے پیچھے گھومتے رہے ۔وہ ان کی تینوں کی نگرانی سے بے خبر اپنی ہی دنیا میں مگن ہوا میں باتیں کرتے رہے دوپہر کو ایک عورت کھانا دینے آتی تو تھی۔" اس بابے پہ تو کافی ترس آتا ہےاس کو کل بھی کھانا دے رہی تھی " کلو دانت پیستے بولا۔
جس درخت کے نیچے بابا بیٹھتے تھے کلو اس کے سامنے والے ٹھیلے کے پاس جو بینچ پڑے تھے ان پہ بیٹھا سب کچھ دیکھ رہا تھا ۔
بابا نے کچھہ کھانا کھایا اور کچھہ وہیں چھوڑ دیا اور پوٹلی لیئے دریا کی طرف چل پڑے۔گرمی کی شدت زیادہ تھی وہ اکثر دریا پر جاتے تھے اور ڈبکی لگا کر واپس آجاتے تھے ۔ کلو بھی پیچھے پیچھے چل پڑا ۔وہ دریا پہ گئے اور اپنے اردگرد دیکھا کوئی نہیں تو تھا کلو فوراً درخت کی اوٹ میں چھپ گیا ۔بابا نے پوٹلی رکھی اور دریا میں اترنے لگے جلدی جلدی سے ڈبکی لگائی ۔کلو پوٹلی اٹھانے ہی والا تھا کی بابا نے سر پانی سے باہر نکال لیا اور کلو بھاگ کے پھر سے درخت کے پیچھے چھپ گیا۔اب باباجلدی سے پانی سے نکے پوٹلی کو واپس اٹھایا گلےسے لگایا اور واپس اپنی جگہ چوراہے میں درخت کے نیچے آکر بیٹھ گئے۔ شام کو جب واپس جھونپڑی میں واپس گئے تو یہ تینوں دوست بھی پیچھے پیچھے گئے ۔جھونپڑی کی اوٹ میں ایک سوراخ تھا جس سے اندر کا سارا منظر ہی دیتا تھا ۔ اندر بس ایک پرانا پھٹا ہوا بستر تھا ۔بابا نے اپنی پوٹلی نیچے رکھی اور بستر پر لیٹ گئے ۔ اور کچھ دیر ہوا میں گھورتے رہے پھر خود سے باتیں شروع کر دی۔یہ باتیں سمجھ میں نا آنے والی زبان تھی یا پھر کچھ جلدی جلدی بول رہے تھے ۔کلو ، رفیق اور چھوٹوں چھپ کر سب کچھ دیکھ رہے تھے اور بابے کی عجیب وغریب باتیں سن رہے تھے ۔
کلو :یار یہ کب سوئیں گے پھر ہم ان کی پوٹلی دیکھیں ۔رفیق : نہ سوئے تو پوٹلی چوری کر لیں گے مگر یہ دیکھنا ضروری ہے کہ آخر اندر ہے کیا ؟
اتنے میں بابا ہڑبڑا کے اٹھے ""ارے میری رانی تی کدھر ہے؟ سنو رانی کی ماں تم نے درواذہ بند نہیں کیا ہوگا۔ باہر ڈاکو گھومتے ہیں جنگل میں نہ چلی گئی ہو؟ باہر دیکھو میں رائفل نکالوں۔ارے یہ کنویں میں کچھ گرنے کی آواز آئی ہے ۔ارے یہ پانی سرخ کیوں ہے؟مجھے معاف کر دینا تم دونوں کو نہیں بچا سکا "۔
وہ بابا پوٹلی سے میلے کپڑے نکال زور زور سے رونے لگا ۔یہ کپڑے اس کی بچی اور بیوی کے تھے جن کو ڈاکوؤں نے بے گناہ مار دیاتھا اور کنویں میں پھینک کر فرار ہو گئے تھے ۔یہ وہی ڈاکوں تھے جو کچھہ دن پہلے ساتھ والے گاؤں میں ڈکیتی کرتے پکڑے گئے تھے۔ ان کا طریقہ واردات یہ تھا کہ پہلے بچوں اور عورتوں کا منہ بند کرتے نیند میں تاکہ ان کے شور سے باقی گاؤں والے نہ جاگ جائیں اور پھر ڈکیتی کر کے فرار ہو جاتےاور اکثر چھوٹی بچیوں کو اپنے ساتھ لے جاتے ۔اس بابے کی بیٹی بہت چھوٹی اور ڈاکوں کے سانس بندکرنے کی وجہ سے وہی مر گئ تھی۔ ڈاکوؤں کو پتہ چلا تو کنویں میں پھینک دیا ۔اس کی بیوی کو کلھاڑی سے مار کر کنویں میں پھینک دیا ۔
اب وہ تینوں جھونپڑی سے باہر کھڑے ایک دوسرے کو حیرانگی سےدیکھ رہے تھے ۔اتنا ظلم سہنے کے بعد واقع کوئی انسان پہلے جیسا نہیں رہ سکتا ۔اب یہ اس بابا کا بہت خیال رکھنے لگے یقیناً ان کے دکھ کا مداوا تو نہیں کیا جاسکتا تھا مگر ان کی دیکھ بھال تو کی جاسکتی تھی ۔ان تینوں کو بابے کی حالت پر واقع بہت ترس آیا اور انہوں نے عہد کیا کہ آج سے بابے کا بہت خیال رکھیں گے ۔ان کے کھانے پینے ، پہننے اوڑھنے اور رہنےکا بندوبست سب ان کی زمہ داری بن گئ تھی ۔

0 تبصرے